تو ہے نا آشنا،تو ہے بے خبر

تو ہے نا آشنا،تو ہے بے خبر

تیرے اندر چھپی ہیں صلاحیتیں
تو اقبال کا شاہین ہے
تیرا لہو جیسے آگ ہے
تیرا جسم جیسے فولاد ہے
مگر تو ہے نا آشنا،تو ہے بے خبر
تیرا سینہ جیسے رازداں
تیرا ہاتھ جیسے تلوار ہے
تیری روحانیت کا عروج بھی
تیری مادیت کے ساتھ ہے
مگر تو ہے نا آشنا،تو ہے بے خبر
آج تیرا جو حال ہے
بھٹکتی زندگی کی روداد ہے
سرمایہ تھا،وہ لٹ گیا
عروج تھا،آج زوال ہے
مگر تو ہے نا آشنا،تو ہے بے خبر

ماہ نور خلیل