روایت شکن

روایت شکن

تقدیریں بدل ہی جاتی ہیں
کایا سب پلٹ ہی جاتی ہیں
اس بےحس و ظالم دنیا میں
تدبیریں الٹ ہی جاتی ہیں

حیرت بھی اکثر ہوتی ہے
دنیا یہ لوگوں پر کیسے ستم
کر کے سکوں سے سوتی ہے

ہر فرد اس زمین کا سچا ہے
ہر کوئی یہاں خاندانی ہے
جو جتنا ہے گناھگار یھاں
سب میں وہی نورانی ہے

غلطی کی ہھاں گنجائش نہیں
اس پر بھی دولت ھاوی ہے
غریب سے ہوئی تو جرم ھوا
امیر سے ہوئی، نادانی ہے

حال کی عبادتیں دکھتی نہیں
حماقتیں زبان پر پرانی ہیں
سن سن کے دنیا کی باتیں
چہرے پر بھی اب پشیمانی ہے

دنیا کےرسم و رواج سے اب
اپنی جان چھڑانی ہے
اپنی ہے پرواہ کرنی بس
زندگی اپنی بنانی ہے

لائبہ اظہر