پھر وہی لوگ یاد آنے لگے
زریاب فاطمہ
جن کو بھولنے میں زمانے لگے
جو رکھتے تھے کبھی دل میں اپنے
آج وہی لوگ دامن چھڑانے لگے
غیروں نے دیے غم ان سے نہیں شکوہ
مگر اب تو اپنے بھی آزمانے لگے
جو کیے تھے وعدے ساتھ نبھانے کے
ہمیں تو وہ وعدے بھی فسانے لگے
ہم نے شکوہ کیا تھا بے رخی کا ان سے
اور وہ قصہ دوسرا سنانے لگے
ہم ہی قصور وار ٹھہرائے گئے
لوگ جب قصہ ماضی دہرانے لگے
پھر وہی لوگ یاد آنے لگے
