وہ اپنے کالج کے گراونڈ میں بیٹھی تھی جب اس کی دوستوں نے آ کر اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کیا بات ہے آج کل بہت مسکرایا جا رہا ہے۔ میں ہمیشہ سے ہی ہنستی مسکراتی ہوں تم لوگوں نے اگر آج میری مسکراہٹ دیکھی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔
فاطمہ نے بڑے موڈ سے اپنی سہیلیوں کو جواب دیا۔ مسکراتی ہوگی لیکن جتنی خوبصورت آج کل تمہاری مسکراہٹ ہے پہلے اتنی خوبصورت نہ تھی۔ ہاں تو جب محبت ہو تو مسکراہٹ تو خوبصورت ہوگی ہی فاطمہ نے اپنی سہیلی کو بولا۔ اپنی محبت کا اقرار کرنے کی دیر تھی کہ اس کی سہیلیوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ بس کرو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے۔ یہ بولتے ہوئے فاطمہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کلاس کی جانب چل پڑی۔
فاطمہ آج کل بہت خوش رہنے لگی تھی اور اس کی یہ خوشی اس کے گھر والوں سے بھی چھپی نہ تھی۔ اس کی والدہ کو اندازہ ہو گیا تھا اس لیے وہ اکثر فاطمہ کو سمجھاتی تھی لیکن وہ ان کی کسی نصیحت پر کان نہ دھرتی تھی۔ ان کو ڈر تھا کہ ان کی بیٹی کوئی غلط قدم نا اٹھالے اس لیے انہوں نے فاطمہ کی منگنی اس کے خالہ زاد سے کردی۔ فاطمہ کے بار بار انکار پر امی نے اس کو سمجھایا کہ اس عمر میں لڑکیاں غلط فیصلے کر لیتی ہیں اور پھر پوری زندگی پچھتاتی ہیں۔
نا محرم سے محبت اک زہر ہے جو آپ کو مار ڈالتی ہے۔ فاطمہ نے اپنی امی کی ایک نا سنی اور موقع ملتے ہی عامر کے ساتھ گھر سے فرار ہوگئی۔ عامر ایک عیاش اور آوارہ لڑکا تھا اس نے فاطمہ کا سودہ کر دیا اور کوٹھے پر چھوڑ گیا۔ کوٹھے میں بیٹھی وہ رو رہی تھی اور اپنی ماں کی نصیحتوں کو یاد کر کے پچھتا رہی تھی کہ کاش میں امی کی سن لیتی اور مان لیتی کہ نامحرم سے محبت اک زہر ہے اور یہ زہر اب ہر روز مجھے مارے گا اور مر مر کے جینا ہوگا۔
محبت اک زہر
