کھلے آسمان تلے بیٹھی ہوں۔۔
عبیر
لکھ رہی ہوں خواب، ذرا غور کریں
سوچتی ہوں پروانہ بن کہ اڑ جاؤں کہیں
گھنے بادلوں میں ستارہ بن کہ چھپ جاؤں کہیں
کبھی چیل بن کہ اونچی اڑان بھروں
کبھی گلہری بن کہ شاخوں سے الجھوں
اندھیری راتوں میں جگنو سی روشنی بنوں
تیز طوفان میں چٹان سی دیوار بنوں
کبھی تپتی دھوپ میں
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میں بنوں
کبھی بھیگے موسم میں
مٹی کی سوندھی خشبو بنوں
کبھی الجھے ہوے خیالوں میں
کسی خوبصورت افسانے سی لگوں
تو کبھی کسی افسانے میں
کسی کا الجھا خیال بنوں
میں
