کمی

کمی

وقت کا پہیہ رواں دواں ہے
سفرِ زندگی بھی ہے جاری وساری
وہی اُجلے دن وہی ہیں شامیں
وہی حسنِ عشق وہی محبت کی باتیں
وہی پھیلی مسکان وہی ہیں قہقہے
وہی سوز و ساز وہی ہیں نغمے
وہی ارض و سماں وہی راگنی ہے
وہی مہر و ماہ وہی چاندنی ہے
وہی بدلتے موسم وہی ہیں بہاریں
بامِ فلک سے مجھ کو وہی رفعتیں ہیں
بس اک تم ہی نہیں ہو۔۔۔
اب اِن بہاروں میں پہلے سی باتیں نہیں ہیں
ڈھلتی شاموں میں اب رعنائیاں نہیں ہیں
اِن ماہ و مہر سے مجھ کو رغبت نہیں ہے
محبت سے اب مجھ کو اُلفت نہیں ہے
اک تم جو نہیں ہو
بس تم جو نہیں ہو

روعاب قیوم