گزری بہار

گزری بہار

رات جو جھانکا میں نے پیچھے بند کواڑ کے
اداسی میں گم تھے لمحے گزری بہار کے

جو گزار دیئے ہم نے تم نے راہِ فرار میں
یہاں قید وہی منظر تھے گزری بہار کے

خوشبوئیں مگن تھیں ترے انتظار میں
تم جو آتے تو مہک جاتے دن بہار کے

میری آوارگی میں روٹھ گئے پرندے ترے مزار کے
میری آس سُن مجھے لوٹا دے سب عطر بہار کے

خزاں بڑی سہانی تھی، تھے دن بھی قرار کے
مگر تم جو گئے تو روٹھ گئے دن بہار کے

ہجر تو ہجر سہی چند ہی دن تھے اظہار کے
مگر نہیں تھے قسمت میں منظر کسی بہار کے

آج بھی دل کہتا ہے لکھوں گا ایسی حسیں غزل
کہ لوٹ آئیں گے گُل سارے تیری بہار کے

Seerat Rana