گفتگو

گفتگو

!بچھڑنے سے کچھ دیر پہلے
میں نے کہا روٹھو گے تو مر جاؤں گی اْس نے کہا یہاں مرنا کونسا آسان ہے
میں نے کہا محبت ہے کچھ تو قدر کرو جناب اْس نے کہا واللّٰلہ یہ محبت تو وبالِ جان ہے
میں نے کہا بچھڑ کے مجھ سے پچھتاؤ گے تم اْس نے کہا تمھیں خود پہ کیوں اتنا مان ہے
میں نے کہا دل کو منانے میں وقت لگتا ہے اْس نے کہا تو دماغ کی باتوں سے انجان ہے میں نے کہا آنکھیں اب بھی سچی لگتی ہیں تمھاری اْس نے کہا آنکھوں میں جھانکنے کا یہ ہی نقصان ہے
میں نے کہا میری یاد کو سمیٹ کے رکھو گے سدا اْس نے کہا یادیں تو فالتو سامان ہے لوٹنے کے بعد ! اْس نے کہا آج بھی یاد کرتا ہوں تمھیں
میں نے کہا بھول جانے میں سب کی بھلائی ہے اْس نے کہا بےوفا سہی پر برا نہیں ہوں میں
میں نے کہا بےوفائی اپنے آپ میں ایک برائی ہے اْس نے کہا اتنا کیوں بدل گئی ہو تم
میں نے کہا تغیر فطرتِ انسانی ہے اْس نے کہا ہنستے ہوئے آنکھیں بھیگتی ہیں تمھاری
میں نے کہا ہائے یہ آنکھیں ہی تو وجہ تباہی ہیں اْس نے کہا کیا دعاوں میں مانگا تھا مجھے
میں نے کہا میری دعا تو خالی ہی پلٹ آئی ہے اْس نے کہا ایک بار تو شکوہ کرو مجھ سے
میں نے کہا جھگڑنے کو تو تمام عمر پڑی ہے اْس نے کہا چلو پھر کھیل محبت کا کھیلتے ہیں
میں نے کہا محبت کھیل نہیں جذبہِ خدائی ہے اْس نے کہا دے دو صدا، میں لوٹ آؤں گا میں ہنسی اور کہا تیری بات جھوٹی ساری ہے

ہانیہ ارمیا