آج بھی وہ ان سڑکوں، ان چلتی ہارن بجاتی گاڑیوں، ان اونچی اونچی عمارتوں ہر جگہ یہی سوچتی ہے کہ کہیں وہ سب سچ نہ ہوجائے۔ اسی سوچ میں پوری رات گزار دیتی ہے کیونکہ وہ اس صبح سے ڈرتی ہے
وہ ایک عام سی لڑکی تھی۔ خواب دیکھنے والی، ہر وقت باتیں کرنے والی، بات بات پر ناراض ہونے والی بس ایک عام سی لڑکی۔ گھر کی رونق تھی وہ، پر وہ گھر۔۔۔۔۔۔
کسی کو یہ معلوم نہ تھا آگے کیا ہونے واال ہے۔ زندگی ایک لمحے، ایک پل میں کل کی خوشی کو آج کی یاد اور آج کی خواہش/تصور کو کل کے یقین میں کیسے بدل دیتی ہے وہ آج بھی یہی سوچتی رہتی ہے۔
سب سے کہا کرتی تھی کہ زندگی ایک کھیل کی مانند ہے جس میں آج تم جیت جائوگے پر کل شاید ہار جائو۔ اس ہار کے خوف سے کھیلنا مت چھوڑنا بلکہ اسے تسلیم کرکے آگے بڑھنا۔
اپنی ڈائری کو سال میں بس ایک بار کھولتی تھی کیونکہ ہر سال جب بھی اسے کوئی نئی خوشی ملتی اسے لفظوں میں بیان کردیتی تھی۔ اگلے سال پھر ڈائری کھولتی اور پچھلے سال لکھی ہوئی بات کو پڑھ کر خوش ہوجاتی تھی۔ پر آج اسکی ڈائری اس آخری لکھی ہوئی خوشی کے بعد سے خالی ہے۔ کیا اس ڈائری میں وہ صرف اپنے خوشی کے لمحات ہی لکھتی تھی یا وہ کسی چیز سے بھاگ رہی تھی جو وہ اس ڈائری میں لکھنا نہیں چاہتی تھی؟
وہ اس دن گھر پر ہی تھی۔ ہفتہ کا دن تھا تو سب گھر والے گھر پر ہی تھے۔ اس دن صبح جب وہ اٹھی تو بہت خوش تھی، اس کی سالگرہ جو تھی۔ سو کر جیسے ہی اٹھی، ابو سے کہنے لگی: “کیک لینے چلیں۔” اور جلدی جلدی ناشتہ کرکے نکل گئ کیک لینے۔
وہ گاڑی میں اکیلے بیٹھی تھی کیونکہ ابو پیسے جیب میں رکھنا بھول گئے تھے۔ وہ دوبارہ گھر گئے پیسے لینے، اس نے گاڑی میں گانا لگایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ ہی دیر میں گانا ختم ہوا، اس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ سب بھاگ رہے ہیں، ہر طرف دھواں ہے اور لوگ چیخ رہے ہیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے اسے بہت پاس سے کسی کی آواز آئی۔ کوئی اس کی گاڑی کے شیشے کو زور زور سے بجا رہا تھا۔ اس نے شیشہ نیچے کرا تو وہ عورت چیخنے لگی
“آگ لگ گئی ہے۔۔۔ بھاگو سب۔۔۔ بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔-“
وہ عمارت کے نیچے کھڑے اپنے گھر کو جلتا دیکھ رہی تھی۔ اس گھر سمیت وہ خوشیاں، وہ ڈائری، اپنے پیاروں، سب کو خود سے دور جاتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اکیلی ہو گئی تھی۔
یہ دیکھتے دیکھتے اسکی آنکھ کھلتی ہے۔ سب اسے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتی ہے، اسے آدھی کھلی آنکھ سے وہ آگ دکھائی دیتی ہے پر ساتھ ہی کسی گانے کی آواز بھی آتی ہے۔ وہ اس آگ کو دیکھ کر ایک دم اٹھ جاتی ہے۔ گانا ختم ہوتے ہی وہ سب سے پہلے اس آگ کو بجھاتی ہے پھر بہن کے ہاتھوں سے چھری لے کر میز -پر رکھے کیک کو کاٹتی ہے اور گھر والوں سے گلے لگ کر رو پڑتی ہے
وہ خواب اور اپنوں کو کھو دینے کا خوف آج بھی اس کے ساتھ ہے
اور
آج بھی وہ ڈائری اس کے قلم کی سیاہی کی منتظر ہے